Pages

تمہید

جمعہ، 3 جون، 2016

میں کیا حقیقتِ رعنائیِ خیال کہوں

غزل
شکستِ رنگِ تمنّا کو، عرضِ حال کہوں
سُکوتِ لب کو تقاضائے صد، سوال کہوں

ہزار رُخ ترے ملنے کے ہیں، نہ ملنے میں
کسے فراق کہوں اور کسے، وصال کہوں

مجھے یقیں ہے کہ کچھ بھی چھپا نہیں، اُن سے
انہیں یہ ضد ہے  کہ  دلِ  مبتلا،  کا  حال  کہوں 


تو بے مثال سہی پھر بھی دل کو ہے اصرار
ادا   ادا   کو   تیری   عالمِ    مثال    کہوں

مزاج  محفلِ  گیتی  اگر  نہ  برہم  ہو
تو رنگِ عیش کو کردِ رُخِ ملال کہوں

ہوا کے دوش پہ ہے ایک شعلہء لرزاں
کہوں تو کیا تری تہذیب  کا  مآل  کہوں

وہ ایک خواب جو تعمیر آپ ہے اپنی
میں کیا حقیقتِ رعنائیِ  خیال  کہوں

غزل کی بات رہے گی وہیں  اگر سوبار
جواب  شوخی  و  رعنائی  غزال  کہوں

روش یہ سادگی، عشق کا تقاضا ہے
کمال ہوش کو اخلاص کا زوال کہوں

روش صدیقی

  • 1911-1971

مکمل تحریر >>

پیر، 9 مئی، 2016

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے


ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے ؟

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے ؟

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے ؟

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے ؟

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے ؟

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سواۓ بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے ؟

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے ؟

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ؟

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے ؟
مکمل تحریر >>

اتوار، 1 مئی، 2016

محبت بھی ضروری تھی

" بچھڑنا بھی ضروری تھا"

تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا"۔"
لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہوں گے
تو نے جب آخری خط میرا جلایا ہوگا
تو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے
دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہوگا
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے
مگر پھر آرزووں کا بکھرنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
بتاؤ یاد ہے تم کو وہ جب دل کو چرایا تھا
چرائی چیز کو تم نے خدا کا گھر بنایا تھا
وہ جب کہتے تھے میرا نام تم تسبیح میں پڑھتے ہو
محبت کی نمازوں کو قضا کرنے سے ڈرتے ہو
مگر اب یاد آتا ہےوہ باتیں تھیں محض باتیں
کہیں باتوں ہی باتوں میں مکرنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کااترنا بھی ضروری تھا
وہی ہیں صورتیں اپنی وہی میں ہوں،وہی تم ہو
مگر کھویا ہوا ہوں میں مگر تم بھی کہیں گم ہو
محبت میں دغا کی تھی سو کافر تھے سو کافر ہیں
ملی ہیں منزلیں پھر بھی مسافر تھے، مسافر ہیں
تیرے دل کے نکالے ہم کہاں بھٹکے،کہاں پہنچے
مگر بھٹکے تو یاد آیا بھٹکنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا 


شاعر۔۔۔خلیل الرحمٰن قمر


مکمل تحریر >>

اتوار، 13 مارچ، 2016

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سور رہی ہے

چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

نہ سمجھو تم اسے شور ِبہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

مکمل تحریر >>

وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیاہوئے

وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے

اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

دیوان ناصر کاظمی
مکمل تحریر >>

جمعہ، 11 مارچ، 2016

اب کون ؟

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگاۓ
برسات میں بھی یاد نہ جب اس کو ہم آۓ
مٹی کی مہک سانس کی خوشبو میں اتر کر
بھیگے ہوۓ سبزے کی ترائی میں بلاۓ
دریا کی موج میں آئی ہوئی برکھا
زردائی ہوئی رت کو ہرا رنگ پلاۓ
بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا کا رقص کی لے تیز کئے جاۓ
شاخیں ہیں تو وہ رقص میں پتے ہیں تو رم میں
پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جاۓ
ہر لہر پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو
بارش کی ہنسی تال پہ پازیب جو چھنکاۓ
انگور کی بیلوں پہ اتر آۓ ستارے
رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھاۓ. 

پروین شاکر


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 2 جنوری، 2016

اے نئے سال بتا



اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟

روشنی دن کی وہی ، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی

آسماں بدلا ہے افسوس ، نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

جنوری فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
اور اپریل مئی اور جون میں ہوگی گرمی

تیرامن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کرکے چلا جائے گا

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئے

بے سبب دیتے کیوں لوگ مبارک بادیں
کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں

تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کیُُ

فیض احمد فیض.
مکمل تحریر >>

اک نظرِ کرم اِدھر بھی مہربان !